Pages

14 March 2012

فضائلِ کلمۂ طیب

فضائلِ کلمۂ طیب

اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کے تعلق سے فرماتا ہے ۔ وَلَذِکْرُاللّٰہُ اَکْبَرُ ترجمہ:اور بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے ۔ اپنے محبوب پاکؐ کے ذکر کے تعلق سے فرمایا ۔ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ترجمہ : اور ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی بزرگی اور حضور ﷺ کے ذکر کی بلندی کو جب روحانی کیمیا بنایا جائے تو جو نسخۂ اکثیر تیار ہوگا وہ افضل الذکر لَااِلٰہَ اِلّااللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہوگا ۔ لَااِلٰہَ اِلّااللّٰہُ ۔ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے تومُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اس کی دلیل ہے ۔ دعویٰ جتنا پُر زور ہوگا دلیل اتنی پُر زور ہوگی۔حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔اَفْضَلُ الذِکْرِ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ تمام اذکار میں اَفضل و اعلیٰ ذکر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ مُحَمّدُ رسُولَ اللّٰہ ِہے۔
( ابنِ ماجہ و نسائی
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جبرئیل سے سناکہ حق سبحانہ تعالیٰ فرمایا کہ روئے زمیں پر کلمۂ طیب سے اعلیٰ و افضل کوئی کلمہ نہیں اتارا ۔ کلمۂ طیب کی برکت سے زمین و آسمان اور تمام عالم کی اشیاء قائم ہے ۔ درحقیقت یہی کلمہ اخلاص ہے ‘ یہی کلمہ شفاعت ہے ‘یہی کلمہ برتر ہے ‘یہی کلمہ بزرگ ہے ‘ یہی کلمہ مبارک ہے‘ اس کلمہ کو قرآن مجید و حدیثِ مبارکہ میں دیگر مختلف ناموں سے پکارا گیا ۔ مثلاً کلمۂ اسلام ، کلمۂ ایمان ، کلمۂ نجات ، کلمۂ تقویٰ ، کلمۂ توحیدورسالت کلمۂ طیّب وغیرہ۔                                                                                                                                      
مُلّا علی قاریؒ فرماتے ہیں اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تمام ذکروں میں افضل اور سب سے بڑا ذکر کلمہ طیب ہے کہ یہی دین کی وہ بنیاد ہے جس پر سارے دین کی تعمیر ہے ۔ یہ وہ پاک کلمہ ہے کہ دین کی چکی اسی کے گرد گھومتی ہے ۔ اسی وجہ سے صوفیاء اور عارفین کرام اس کلمہ کا اہتمام فرماتے ہیں ۔ اور تمام اذکار پر اس ذکر کی ترجیح دیتے ہیں اور اس کی جتنی ممکن ہو کثرت کراتے ہیں کہ تجربہ سے اس میں جس قدر فوائد اور منافع معلوم ہوئے ہیں کسی دوسرے میں نہیں۔                                             

 حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ اذکار میں سب سے زیادہ تفصیل والاذکر پاک لَااِلٰہَ اِلّااللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے ۔ اگرچہ کہ اور اذکار بے شمار ہیں ۔ لیکن بہترین وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا ذکر پاک کامل و اکمل ہوتا ہے۔    لَااِلٰہَ اِلّااللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کلمۂ توحید ہے ۔ ایمان اس کے بغیر صحیح ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس کلمہ کو مداومت کے ساتھ پڑھنے اور ہمیشہ اس میں مشغول رہنے سے باطن کی تطہیر و تصفیۂ قلب ہوتا ہے ۔ اور وہ تمام اسرار و رموز افشا ہوتے ہیں جو اسرار الہیہ کہے جاتے ہیں اس کلمۂ طیب میں عجیب ترین خواص اور نادر راز پوشیدہ ہیں۔ (اشعۃ اللمعات)   
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃٍ طَیَّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیَّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِت وَّفَرْعُھَافِی السَّمَآءِ تُوْتی اُکلَھَا کُلَّ حِیْنٍ باِذْنِ رَبِِّھَا۔
ترجمہ :کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ با ت کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے۔(سورہ ابراہیم آیت ۲۴۔۲۵))
کلمۂ طیبہ کی جڑ مومن کی زمین میں ثابت اور مضبوط ہوتی ہے اور اس کی شاخیں یعنی عمل آسمان میں پہونچتے ہیں اور اس کے ثمرات برکت و ثواب ہر وقت حاصل ہوتے ہیں۔
وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْق الْاَرضِ مَالَھَامِنْ قَرَارٍ
 (سورہ   ابراہیم آیت ۲۶)
ترجمہ:۔ گندی بات کی مثال جیسے ایک گندہ پیڑ کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیاگیا اب اسے کوئی قیام نہیں۔
کیونکہ کلمۂ خبیث کی جڑ اس کی زمین میں ثابت و مستحکم نہیں شاخیں اس کی بلند نہیں ہوتیں یہی حال ہے کفری کلام کا کہ اس کی کوئی اصل ثابت نہیں اور کوئی حجت و برہان نہیں رکھتا جس سے استحکام ہو نہ اس میں کوئی خیروبرکت کہ وہ بلندی قبول پر پہونچ سکے۔                                        
یُثَّبّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔
 ( سورہ ابراہیم آیت  ۲۷ )
ترجمہ :اللہ ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں۔حضرت ابوقتادہؓ فرماتے ہیں کہ دنیا میں قولِ ثابت سے مراد کلمۂ طیبہ ہے ۔ اور آخرت میں قبر کا سوال و جواب مراد ہے ۔ کیونکہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے ۔ اور دنیا میں ان کی حیات کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ۔(سورہ رعد آیت ۱۴) ترجمہ : اسی کا پکارنا سچا ہے۔
حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ دعوت الحق سے مراد کلمۂ طیبہ کی شہادت ہے۔
فَانَزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہ وَعَلَی الْمُوْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَاَنٰوُاْ اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلِھَا (سورۂ الفتح آیت۲۶  ))
ترجمہ :پس اللہ تعالیٰ اپنی سکینت ( سکون و تحمل یا خاص رحمت ) اپنے رسولؐ پر نازل فرمائی اور مومنین پر اور ان کو کلمۂ تقویٰ پر جمائے رکھا اور وہی کلمۂ تقویٰ کے مستحق اور اہل تھے۔حضرت علیؓ حضرت عمر فاروقؓ حضرت ابوہریرہؓ و حضرت ابن عباسؓ سے حضور اقدس ﷺ سے یہی نقل کیا ہے کہ کلمۂ تقویٰ سے مراد کلمہ طیبہ ہے ۔
وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ ربُّکَ صِدْقاً وَّعَدْلاً (سورۂ انعام آیت نمبر ۱۱۶)
ترجمہ: اور تیرے رب کا کلمہ صداقت اور انصاف و اعتدال کے اعتبار سے مکمل ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے کہا یا رسول اللہؐ قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے کون سب سے زیادہ بہرہ مند ہوگا ۔ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا میں جانتا تھا کہ تم سے پہلے کوئی شخص اس معاملے میں مجھ سے سوال نہ کرے گا ۔ کیونکہ میں حدیث کے معلوم کرنے میں تم کو زیادہ حریص پاتا ہوں ۔ میری شفاعت سے بروز قیامت وہ شخص سب سے زیادہ بہرہ مند ہوگا جو خلوصِ دل سے اپنی ہر سانس میں لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا ذکر ادا کیا ہو۔(بخاری شریف ) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور کریم ﷺنے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوگا جہنم سے ہر اس شخص کو نکال لو جس نے کلمۂ طیبہ کہا ہو اور اس کے دل میں ذرّہ برابر بھی ایمان ہو۔(حاکم شریف)
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ائے لوگو!لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا کثرت سے ورد کرنے والوں پر موت کے وقت کوئی گھبراہٹ نہ ہوگی۔ نہ ان لوگوں کو اپنی قبر میں کسی قسم کی کوئی وحشت ہوگی ۔ نہ حشر کے دن ان کو کسی طرح بے چینی ہوگی ۔ گویا کہ مجھے اس وقت کا وہ منظر نظر آرہا ہے کہلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھنے والے اپنی قبروں سے اٹھ رہے ہیں اور اپنے سروں سے خاک جھاڑ رہے ہیں ۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ بے حد شکر و احسان ہے اس خدائے تعالیٰ کا جس نے تمام تکلیفیں اور آفتیں ہم سے دور فرما دیں اور کوئی رنج و غم ہمارے پاس نہ پھٹکا۔(طبرانی ۔ بہقیؒ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضور ﷺنے فرمایالَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی کثرت سے گواہی دیتے رہا کرو اس سے پہلے کہ ایسا وقت آئے کہ تم اس کلمۂ کو نہ کہہ سکو ۔ ( ابوالعیلی))
حضور ﷺنے فرمایا جس کا آخری کلام’’ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ہوتو اس کو جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی بندہ ’ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ کا خلوصِ قلب سے قول کرے اور پھر اسی حال پر مرجائے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ جنت میں نہ جائے۔(بخاری و مسلم شریف)
حضور نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ حضرت ابوہریرہؓ سے ارشاد فرمایا کہ جاؤ اور جو ایسا آدمی ملے جو یقینِ قلب کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ُکی گواہی دیتا ہو اس کو میری طرف سے جنت کی بشارت سنا دو۔ 
( مسلم شریف)                                                                                                                        
حضرت عثمان غنی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی اس حال میں دنیا سے گیا کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پر یقین و اعتقاد رکھتا تھا تو وہ جنت میں جائے گا۔ (مسلم شریف)                                                                                            حضرت ابوطلحہؓ نے فرمایا جس نے کلمۂ طیبہ کی تصدیق کی ۔ جنت میں داخل ہوگا۔( حاکم)                                                                    
امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ فرماتے ہیں کوتاہ نظر لوگ تعجب کرتے ہیں ۔ کہ صرف لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہنے سے دخولِ جنت کیسے میسر آئے گا ۔ یہ لوگ اس کلمۂ طیبہ کی برکات سے واقف نہیں ۔ اس فقیر کو محسوس ہوا ہے ۔ کہ اگر تمام عالم کو صرف اس کلمۂ طیبہ کے طفیل بخش دیں اور بہشت میں بھیج دیں تو گنجائش رکھتا ہے ۔ اور مشاہدے میں اس طرح آتا ہے کہ اگر اس کلمۂ مقدسہ کی برکات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمام عالم ، پرتقسیم کرتے رہیں ۔ سب کو کفایت کرتا اور سب کو سیراب کرتا ہے ۔ تو اس کلمۂ طیبہ کی برکات کس قدر بڑھ جاتی ہیں ۔ جب کہ اس کے ساتھ کلمۂ مقدسہ محمد رسول اللہ جمع ہوجائے۔ اور تبلیغ توحید کے ساتھ مل جائے ۔ اور رسالت ولایت کی ساتھی بن جائے ۔ ان دو کلموں کا مجموعہ ولایت و نبوت کے کمالات کا جامع ہے ۔ اور ان دو سعادتوں کا پیشوائے راہ ہے ۔ یہی کلمہ ہے ۔ جو ولایت کو ظلمات ظلال سے پاک کرتا اور نبوت کو درجۂ علیا تک پہنچاتا ہے ۔ اے اللہ! ہمیں کلمہ طیبہ کی برکات سے محروم نہ کر اور ہمیں اس پر ثابت رکھ ۔ اور ہمیں اس کی تصدیق پر مو ت نصیب فرما ۔ اور اس کی تصدیق کرنے والوں کے ساتھ ہمارا حشر فرما ۔ اور ہمیں اس کی حرمت اور اس کی تبلیغ کرنے انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات و برکات کی حرمت سے جنت میں جانا نصیب فرما۔
(مکتوباتِ امام ربانی جلد سوم ۔مکتوب ۳۷۔ ص ۱۰۴۲)
حضور ﷺفرماتے ہیں ثَمَنُ الْجَنَّۃِ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَسُول اللّٰہِ یعنی کہ جنت کی قیمت کلمہ طیب لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَسُول اللّٰہِ کا اقرار و تصدیق ہے ۔
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کلمۂ طیبہ کی شہادت جنت کی کنجیاں ہیں ۔ ( مسند امام احمد)                                         
حضرت وہب بن منبہؓ سے پوچھا گیا کہ تمہارے لئے کلمہ طیب جنت کی کنجی نہیں ؟ کہا ضرور ہے لیکن ہر کنجی کے لئے دندانے ہوتے ہیں ۔ پس لائے تو داندانے والی کنجی کو کھولا جائے گا تیرے لئے اگر نہ لائے ایسی کنجی نہ کھولا جائے گا تیرے لئے ۔ (بخاری شریف) داندانوں سے مراد یہاں اقرارِ باللسان اور تصدیقِ بالقلب  ہے                                       
راز دارِ حضور اکرم ﷺ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ اسلام ایسا دھندلا رہ جائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار پرانے ہونے سے دھندلے ہوجاتے ہیں ۔ کوئی روزہ کو جانے گا نہ حج کو نہ زکوٰۃ کو ۔ آخر ایک رات ایسی ہوگی کہ قرآن کریم بھی اٹھا لیا جائے گا۔ کوئی آیت اس کی باقی نہ رہے گی ( اس وقت کے) بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں یہ کہیں گی کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو کلمہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھتے سنا تھا ہم بھی اسی کو پڑھیں گے ۔حضرت حذیفہؓ کے ایک شاگرد صلہؓ نے عرض کیا ، جب زکوٰۃ ، حج ، روزہ وغیرہ کوئی رکن نہ ہوگا تو یہ کلمہ کیا کام دے گا؟ حضرت حذیفہؓ نے سکوت فرمایا ۔ صلہؓ نے پھر پوچھا ، آپ نے سکوت فرمایا ۔ صلہؓ نے پھر اصرار کیا کہ جب اسلام کا کوئی رکن نہ ہوگا تو صرف کلمہ پڑھ لینے سے کیا ہوگا؟ تیسری مرتبہ حضرت حذیفہؓ نے فرمایا ۔ جہنم سے نکالے گا، جہنم سے نکالے گا ، جہنم سے نکالے گا ۔ یعنی ارکانِ اسلام ادا نہ کرنے کے باوجود کسی نہ کسی وقت اس کلمۂ نجات کی برکت سے نجات ملے گی۔                                                                                                                                                                                                                                                                                     

16 October 2011

Sarkar Maroof Peer



بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی  رسولہ الکریم
افضل الذکرلا اله الا الله محمد رسول الله
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہُ

LA ILAHA ILLAL LAHU MOHAMMADOOR RASULLULLAHE (S.A.W)



Sarkar Maroof Peer
حضرت خواجہ شیخ محمد فاروق شاہ قادری الچشتی افتخاری معروؔف پیرعفی عنہُ